رولے ابدل کھول کر تو اے دل خونابہ بار
یہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کر مزار
یہ محل خیمہ تھا ان صحرا نشینوں کا کبھی
بحر بازی گاہ تھا جن کے مکینوں کا کبھی
زلزلے جن سے شہنشاہ ہوں گے درباروں میں تھے
شعلۂ جاں سوز پنہان جن کی تلواروں میں تھے
آفرینش جن کی دنیائے کہن کی تھی اجل
جن کی ہیبت سے لرز جاتے تھے باطل کے محل
زندگی دنیا کو جن کی شورش قم سے ملی
مخلصی انساں کو زنجیر توہم سے ملی
جس کے آوازے سے لذت گیر اب تک گوش ہے
وہ جرس بھی اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے
آہ اے سسلی سمندر کی ہے تجھ سے آبرو
رہنما کی طرح اس صحرا کے پانی میں ہے تو
زیب تیرے خال سے رخسار دریا کو رہے
تیری شمعوں سے تسلی بحر چیا کور ہے
ہو سبک چشم مسافر پر ترا منظر مدام
موج رقصاں تیرے ساحل کی چٹانوں پر مدام
تو کبھی اس قوم تہذیب کو گہوارہ تھا
حسن عالم سوز جس کا آتش نظارہ تھا
نالہ کش شیرازہ کا بلبل ہوا بغداد پر
داغ رویا خون آنسو جہاں آباد پر
آسمان نے دولت غرناطہ جب برباد کی
ابن بدروں ے دل ناشاد فریاد کی
مرثیہ تیری تباہی کا میری قسمت میں تھا
یہ تڑپنا اور تڑپانا میری قسمت میں تھا
ہے تیرے آثار میں پوشیدہ کس کی داستاں
تیرے ساحل کی خموشی میں ہے انداز بیاں
درد اپنا مجھ سے کہہ میں بھی سراپا درد ہوں
جس کی تو منزل تھا میں اس کارواں کی گرد ہوں
رنگ تصویر کہن میں بھر کے دکھلا دے مجھے
قصہ ایام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے
میں ترا تحفہ سوئے ہندوستاں لے جاؤں گا
خود یہاں روتاہوں اوروں کو وہاں رلواؤں گا