Allama Iqbal

مرثیہ سسلی

Allama Iqbal

Sialkot, Punjab, Pakistan

1877-1938
رولے ابدل کھول کر تو اے دل خونابہ بار
یہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کر مزار
یہ محل خیمہ تھا ان صحرا نشینوں کا کبھی
بحر بازی گاہ تھا جن کے مکینوں کا کبھی
زلزلے جن سے شہنشاہ ہوں گے درباروں میں تھے
شعلۂ جاں سوز پنہان جن کی تلواروں میں تھے
آفرینش جن کی دنیائے کہن کی تھی اجل
جن کی ہیبت سے لرز جاتے تھے باطل کے محل
زندگی دنیا کو جن کی شورش قم سے ملی
مخلصی انساں کو زنجیر توہم سے ملی
جس کے آوازے سے لذت گیر اب تک گوش ہے
وہ جرس بھی اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے
آہ اے سسلی سمندر کی ہے تجھ سے آبرو
رہنما کی طرح اس صحرا کے پانی میں ہے تو
زیب تیرے خال سے رخسار دریا کو رہے
تیری شمعوں سے تسلی بحر چیا کور ہے
ہو سبک چشم مسافر پر ترا منظر مدام
موج رقصاں تیرے ساحل کی چٹانوں پر مدام
تو کبھی اس قوم تہذیب کو گہوارہ تھا
حسن عالم سوز جس کا آتش نظارہ تھا
نالہ کش شیرازہ کا بلبل ہوا بغداد پر
داغ رویا خون آنسو جہاں آباد پر
آسمان نے دولت غرناطہ جب برباد کی
ابن بدروں ے دل ناشاد فریاد کی
مرثیہ تیری تباہی کا میری قسمت میں تھا
یہ تڑپنا اور تڑپانا میری قسمت میں تھا
ہے تیرے آثار میں پوشیدہ کس کی داستاں
تیرے ساحل کی خموشی میں ہے انداز بیاں
درد اپنا مجھ سے کہہ میں بھی سراپا درد ہوں
جس کی تو منزل تھا میں اس کارواں کی گرد ہوں
رنگ تصویر کہن میں بھر کے دکھلا دے مجھے
قصہ ایام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے
میں ترا تحفہ سوئے ہندوستاں لے جاؤں گا
خود یہاں روتاہوں اوروں کو وہاں رلواؤں گا
Top Urdushayar.com