Agra, Uttar pradesh, India
میرؔ اس سے ملے کہ جو ملا بھی نہ کبھو
حیرت ہے کہ ہو رقیب محرم تیرا
دل جن کے بجا ہیں ان کو آتی ہے خواب
طاعت میں جواں ہوتے تو کرتے تقصیر
اب وقت عزیز کو تو یوں کھوؤگے
کہتا ہے یہ اپنی آنکھوں دیکھیں گے فقیر
ہم میرؔ برے اتنے ہیں وہ اتنا خوب
itne bhi na hum KHarab hote rahte
کاہے کو کوئی خراب خواری ہوتا
حاصل نہیں دنیا سے بجز دل ریشی
تاچند تلف میرؔ حیا سے ہوگا
پردہ نہ اٹھاؤ بے حجابی نہ کرو
ملنا دلخواہ اب خیال اپنا ہے
کیا کریے بیاں مصیبت اپنی پیارے
دامن عزلت کا اب لیا ہے میں نے