Agra, Uttar pradesh, India
دل تجھ پہ جلے نہ کیونکے میرا بے تاب
شب ابر کہ پیشرو ہو دریا جس کا
مسجد میں تو شیخ کو خروشاں دیکھا
پیغمبر حق کہ حق دکھایا اس کا
لو یار ستمگر نے لڑائی کی ہے
ہم سے تو بتوں کی وہ حیا کی باتیں
کیا میرؔ تجھے جان ہوئی تھی بھاری
یاروں کو کدورتیں ہیں اب تو ہم سے
کیا تم سے کہوں میرؔ کہاں تک روؤں
کوچے میں ترے آن کے اڑ بھی بیٹھے
سن سوز دروں کو اس کے جلیے بھنیے
اغلب ہے وہ غم کا بار کھینچے گا میرؔ
آئی نہ کبھو رسم تلطف تم کو
کیا کہیے ادا بتوں سے کیا ہوتی ہے
چپکے رہنا نہ میرؔ دل میں ٹھانو